قطبِ جنوبی کا بیشتر حصہ تین ماہ تک مکمل تاریکی میں رہتا ہے۔ اس سٹیشن پر مقیم برطانوی سائنس دان ڈاکٹر الیگزینڈر کمار ’دنیا کے بدترین موسمِ سرما‘ کی روداد سنا رہے ہیں۔
میں نے اس لمحے کے خواب دیکھ رکھے تھے۔ اس صبح میں جلدی ہی بیدار ہو گیا اور بستر سے نکل کر چھت پر آ گیا۔ چھت پر گذشتہ گرمیوں میں لگائے گئے قطب جنوبی کی برفانی ہواؤں کے باعث پھٹ جانے والے جھنڈے جھول رہے تھے۔
میری نظروں کے سامنے عظیم سفید، یخ بستہ اور ویران صحرا کے اوپر دنیا کا سب سے شاندار سورج طلوع ہوا۔ تیز روشنی نے میری آنکھیں چندھیا کر رکھ دیں ۔۔۔ ہم نے تین ماہ سے زیادہ عرصہ گھن گھور قطبی رات کے اندھیرے میں گزارا تھا۔
میرا آئی پیڈ منٹوں کے اندر اندر جواب دے گیا۔ میں اس پر بیٹلز کا یہ گانا سن رہا تھا، ’ہیئر کمز دا سن‘ جسے میں نے خصوصی طور پر اپنی زندگی کے اس نئے باب کا جشن منانے کے لیے چن رکھا تھا۔
لمبی، تاریک، سیاہ اور تنہا سردیوں میں میں نے گذشتہ ایک سو سال کی قطبی تاریخ پڑھ ڈالی تھی۔ ایک کہانی اکثر میرے دل و دماغ میں گھومتی رہی، خاص طور پر جب میں سٹیشن سے باہر سفر کر رہا ہوتا تھا۔
برطانوی مہم جو اور انیس سو دس میں سکاٹ کی قطبی مہم کے رکن ایپسلی چیری گیرڈ نے اپنے تاثرات و تجربات ’دنیا کا بدترین سفر‘ میں کچھ یوں رقم کیے ہیں: ’قطبی مہم جوئی برا وقت گزارنے کے لیے دنیا کا ستھرا ترین اور تنہا ترین طریقہ ہے۔‘
کتاب میں چیری گیرڈ شدید موسمی حالات کے پیش نظر جسمانی تکالیف اور برداشت کے معنی پر بحث کرتے ہیں۔ قطبی تاریخ میں اس سے بدترین سفر کم ہی گزرے ہوں گے۔
جولائی انیس سو گیارہ میں چیری گیرڈ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ سے باہر نکلے۔ انہوں نے پیدل چلتے ہوئے کیپ کروزیر میں واقع ایمپرر پینگوئن کے علاقے کا رخ کیا۔ منفی چالیس درجے میں ان کا راستہ مکمل اندھیرے میں سے گزرتا تھا۔ مہم کا مقصد تحقیق کے لیے پینگوئن کے انڈے اکٹھا کرنا تھا۔
ان کا کیمپ طوفان سے اڑ گیا تھا اور وہ پچھلے دو دن اور دو راتوں سے بھوکے تھے۔ پیاس بجھانے کے لیے وہ برف چوس کر گزارا کرتے تھے۔
تینوں مہم جو اپنے کیمپ تک انڈے لے کر زندہ لوٹ آئے۔ یہ کسی بھی انسان کا قطبِ جنوبی کی سردی سہنے کا طویل ترین مظاہرہ تھا۔
آج کل حالات مختلف ہیں۔ آج انیس سو گیارہ کے مقابلے پر مختلف قسم کے چیلنجوں اور مختف قسم کی نفسیاتی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب قطبِ جنوبی میں رہنا جسمانی تکالیف کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا نفسیاتی چیلنج ہے۔ ایک ایسی ذہنی میراتھان جس میں آدھے راستے میں رکنے یا واپسی کی گنجائش نہیں۔
میں تیرہ افراد پر مشتمل یورپی عملے کا واحد برطانوی رکن ہوں جسے دنیا کے سب سے ویران سٹیشن پر کام کرنا ہے۔ ہم فروری سے مکمل تنہائی میں زندگی گزار رہے ہیں، اور ہم نے سورج کو آخری بار مئی میں غروب ہوتے دیکھا تھا۔
قطبِ جنوبی کے سطحِ مرتفع پر ہم نے آکسیجن کی کمی اور دنیا کا سرد ترین درجۂ حرارت جھیلا ہے جو منفی اسّی درجے تک چلا جاتا ہے۔ یہاں کوئی جان دار زندہ نہیں رہ سکتا، نہ جانور نہ کوئی پودا۔
اس دوران میں نے خود پر اور اپنے ساتھیوں پر تنہائی اور شدید حالات کے باعث پڑنے والے اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔
سرما کے تاریک مہینوں میں جب آپ کی ٹارچ کی بیٹریاں جواب دے جاتی ہیں تو آپ اندھوں کی طرح اپنے اردگرد کو ٹٹول ٹٹول کر محسوس کرتے ہیں۔ اکیلے پن، تاریکی اور حسی محرومی کی وجہ سے زندگی بلیک اینڈ وائٹ بن جاتی ہے۔
لیکن اب سورج نے طلوع ہوکر ہماری زندگیوں میں نئے رنگ بھر دیے ہیں جن سے ہمارے ذہنی دباؤ میں بھی جزوی کمی آئی ہے۔
تاہم سفر ختم نہیں ہوا، بس اس کا نیا باب شروع ہوا ہے۔ سورج چند گھنٹوں بعد دوبارہ غروب ہو جائے گا، اور ہم پھر تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔ اس کے بعد تین مزید مہینوں کا انتظار، جس کے بعد ہمارا جہاز آئے گا اور ہمیں دوبارہ بھری پری انسانی تہذیب کی طرف لے جائے گا۔ وہاں پہنچ کر چیزیں خریدنے اور تہذیب کے ساتھ دوبارہ ہم آہنگی اختیار کرنا پڑے گی جو ایک الگ مسئلہ ہے۔
لیکن سورج کو خود اپنی آنکھوں سے دوبارہ دیکھنے سے امید کی کرن نظر آتی ہے۔ قطبِ جنوبی کے بارے میں میں چیری گیرڈ سے متفق ہوں: ’تھوڑی ہمت سے کام لو۔ روئے زمین پر ایمپرر پینگوئن سے زیادہ سختیاں کسی نے نہیں جھیلیں۔‘
دنیا کی بدترین سردی گزارنے کا تجربہ
Posted on Aug 16, 2012
سماجی رابطہ